فیس بک سے پیسے کمانا

آج کل سوشل نیٹ ورک اور خاص طور پر فیس بک سے پیسے کمانے کا کاروبار زوروشور سے چل رہا ہے بلکہ فیس بک تو اس وقت سونے کی چڑیا ہے۔ میرے خیال میں سوشل نیٹ ورک سے پیسے کمانا تب ہی ٹھیک ہو گا جب اس میں کوئی دھوکہ دہی نہ ہو اور سوشل نیٹورک کے قوانین کے مطابق کام کیا جائے۔ اس طریقے میں دراصل لوگ فیس بک پر اپنا پیج، گروپ یا پروفائل بناتے ہیں۔ پھر اس کی خوب تشہیر کرتے ہیں۔ جب حلقہ احباب کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے تو پھر مختلف ویب سائیٹ اپنے لنک کی تشہیر کا انہیں کہتی ہیں۔ لوگ اپنے فیس بک پیج، گروپ یا پروفائل پر لنک شیئر کرتے ہیں اور بدلے میں اس ویب سائیٹ سے پیسے لیتے ہیں۔ یہ سودا حلقہ احباب کے دائرے، لائیکس یا جتنی ٹریفک شیئر کردہ لنک سے ویب سائیٹ کو ملے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اور تو اور لوگ اپنے فیس بک پیج کے لائیکس بڑھانے کے لئے بھی دوسرے پیجز والوں کو پیسے دیتے ہیں۔ آج کل سیاست دان اس دوڑ میں بڑے شامل ہیں۔ مزید کئی لوگ کسی ”جرنل سے نام“ کا فیس بک پیج بناتے ہیں۔ اِدھر اُدھر کی ہر چیز شیئر کرتے رہتے ہیں۔ دن بدن لائیکس کی تعداد زیادہ ہوتی جاتی ہے اور جب لائیک کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے تو وہ پیج کسی کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ خریدنے والے کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ فائدہ یہ ہوتا ہے کہ خریدنے والا اس پیج پر اپنی ویب سائیٹ کا لنک شیئر کر کے اپنی ویب سائیٹ کی ٹریفک بڑھاتا ہے یا پھر وہ بھی دیگر ویب سائیٹس والوں کو ٹریفک فروخت کرتا ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ جو پیج پر پیج بن رہے ہیں اور لوگ ہر اوٹ پٹانگ شیئر کر رہے ہیں، یہ سب ایسے ہی ہو رہا ہے؟ دھندا ہے بھائی جی دھندہ۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ پیج کا نام کچھ اور ہوتا ہے اور اس پر شیئر ہونے والا مواد کچھ اور۔ دراصل پیسے کمانے کے کے لئے مذہب سے لے کر سائنس تک، جذبات سے لے کر رنگارنگ روشنیوں تک، کاروباری لوگ ہر حوالے سے انسان کو قابو کرتے ہیں۔ جب انسان قابو آ جاتا ہے تو پھر وہ اپنے مطلب پورے کرتے ہیں
۔ ایسے لوگوں کے لئے فیس بک تو اس وقت سونے کی چڑیا ہے کیونکہ فیس بک پر خاص سے لے کر عام انسان تک کا جمِ غفیر جو لگا ہے۔ اوپر سے عوام اپنے ”کلک کی قیمت“ بھی نہیں جانتی اور نہ ہی جاننا چاہتی ہے کہ اس کے ایک کلک سے کون کیا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ہماری عوام کا تو اللہ ہی حافظ ہے، بغیر سوچے سمجھے شیئر پر شیئر اور لائیک پر لائیک کیے جاتی ہے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ہر کوئی کاروباری نکتہ نظر سے ہی فیس بک وغیرہ پر شیئرنگ کر رہا ہے بلکہ کئی لوگ آگاہی یا دیگر کسی مقصد کے لئے بھی کام کر رہے ہیں۔ ویسے بھی فیس بک یا دیگر ویب سائیٹس کے قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے کاروبار کیا جائے تو میرے خیال میں اس میں کوئی حرج نہیں البتہ دھوکہ دہی غلط ہے۔ یہ دھوکہ چاہے ویب سائیٹ کو دیا جائے یا عوام کو۔


یہ جو جگہ جگہ اشتہار نظر آتے ہیں کہ گھر بیٹھے بغیر اپنی ویب سائیٹ کے فیس بک وغیرہ سے پیسے کمائیں، ایسے اشتہار زیادہ تر ان لوگوں کے ہوتے ہیں جنہوں نے آن لائن پیسے کمانے کے طریقوں کے متعلق باقاعدہ کورس تیار کر رکھے ہیں اور دو چار ہزار روپے میں فروخت کرتے ہیں۔ ابھی جو باتیں میں نے لکھی ہیں ان کورسز میں بھی اس سے ملتی جلتی باتیں ہی ہوتی ہیں یعنی فلاں فلاں ویب سائیٹ پر جائیں، یہ یہ کریں اور پھر پیسے کمائیں۔ پیسے کمانے کا سب بتاتے ہیں مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ ”یہ یہ“ کرنے میں کتنی محنت اور وقت لگے گا۔ ”یہ یہ کرنا“ دھوکہ دہی ہے یا نہیں اور اس طرح پیسے کمانا جائز بھی ہے یا نہیں۔ ”یہ یہ کرنا“ کہہ دینا بہت آسان ہے مگر جب کرنے نکلتے ہیں تو بہت محنت اور وقت لگتا ہے۔ کئی لوگ چھ مہینے یا سال تک لگے رہتے ہیں اور جب کچھ ہاتھ نہیں آتا تو بدھو محنت اور وقت ضائع کر کے لوٹ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو لوگ دھوکہ دہی سے گوگل ایڈسنس کا اکاؤنٹ تک بنا کر فروخت کر رہے ہیں۔ اور تو اور ایسے ایڈسنس کے اکاؤنٹ جن میں پندرہ بیس ڈالر بھی ہوتے ہیں مگر اکاؤنٹ پانچ دس ڈالر میں فروخت ہو رہا ہوتا ہے۔ بندہ پوچھے اگر یہ اکاؤنٹ ٹھیک ہے تو پھر تم پندرہ بیس ڈالر کا اکاؤنٹ پانچ دس میں فروخت کرنے کی بجائے خود کیوں استعمال نہیں کرتے۔ پچھلے دنوں گوگل نے ایسے بے شمار اکاؤنٹ بند کر دیئے تھے۔ ظاہر ہے دھوکے بازی زیادہ دیر نہیں چلتی۔ ویسے اس طرح کی دھوکے بازی کرنے والوں کی وجہ سے کئی صاف لوگ بھی مارے گئے، بہتی گنگا میں وہ بھی بہہ گئے یعنی گوگل کو جس پر ذرا سا بھی شک پڑا اس کا اکاؤنٹ بند کر دیا۔
بہرحال بے شک آن لائن پیسے کمائے جا سکتے ہیں مگر سوچ سمجھ کر اس میدان میں اتریں کیونکہ یہ اتنا آسان بھی نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔ ذرا سوچیں! جو بھی کام کریں گے اس میں محنت اور وقت ضرور لگے گا۔ اس لئے آن لائن پیسے کمانے کو آسان نہ سمجھیں۔ یہ بھی اتنا ہی مشکل اور محنت طلب کام ہے جتنا عام زندگی میں پیسے کمانا ہے بلکہ میں تو اس کو عام زندگی سے زیادہ مشکل سمجھتا ہوں۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے جب لوگ بیس بیس گھنٹے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر مغز ماری کر کے پیسے کمانے کو آسان کہتے ہیں۔ مغز ماری تو ایک طرف، جو صحت خراب ہوتی ہے کیا اس کا کوئی ازالہ ہے؟ آپ دیکھ لیں جو لوگ آن لائن کام کر کے پیسے کماتے ہیں ان کی روٹین انتہائی خراب ہوتی ہے۔ نہ ان کے سونے کا پتہ ہوتا ہے اور نہ ان کے جاگنے کا۔ خیر میں کسی کو آن لائن کام کرنے سے منع نہیں کر رہا، صرف حالات بتا رہا ہوں اور یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ یہ اتنا آسان بھی نہیں جتنا عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں۔ ویسے میرا مشورہ ہے کہ اگر انٹرنیٹ سے پیسے کمانا ہی چاہتے ہیں تو محنت کریں اور کسی ہنر کی بنیاد پر کمائیں یعنی ویب سائیٹ بنانے، ترجمہ کرنے، ڈیزائن تیار کرنے، اپنی آن لائن دوکان (Online Store) یااس جیسے دیگر کام کیونکہ مختلف ویب سائیٹس کے ذریعے تشہیری کاموں کا کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ آج ہے تو کل نہیں۔ بڑی کمپنیوں اور ویب سائیٹس کا کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کس وقت اپنی پالیسی تبدیل کر لیں اور آپ نے سالہاسال محنت کر کے جو ”تشہیری عمارت“ کھڑی کی تھی وہ    منٹوں میں گر جائے۔